The Flip Side | Ghar Bhi Jungle Ho Jatay Hain
گھر بھی جنگل ہو جاتے ہیں
میرے جسم میں متعدد گولیاں راستہ بنا چکی ہیں اور کسی بھی لمحے فرشتہ اجل آیا چاہتا ہو گا. میری آنکھوں کے آگے گزری زندگی کے لمحات ایسے گزر رہے ہیں جیسے کوئی فلم ریورس میں چلا دی گئی ہو.
میں نے جس خطّے میں جنم لیا وہ سرسبز پہاڑوں، خوبصورت جھیلوں اور گنگناتے جھرنوں میں گھرا ہوا تھا. صبح سورج نکلنے کا منظر انتہائی دلکش ہوتا. یوں لگتا جیسے نور کی چادر تان دی گئی ہو اور ہر شے نکھر جاتی. بارش آے دن ہوتی. سبزہ دھل کر اور بھی حسین لگتا. یہاں زیادہ تر لوگوں کی بود و باش کا انحصار ان جانوروں پر تھا جنھیں وہ گھروں میں پالتے تھے. سبز میدانوں میں سفید بکرے بکریاں چلتے یوں نظر آتے جیسے یہ بھی برف کے ساتھ آسمان سے برسے ہوں. جھیلوں کا پانی اس قدر صاف کہ مچھلیاں باہر سے ہی دکھتی تھیں.چاندنی راتوں میں یوں لگتا جیسے چاند کی کرنیں ہم سے باتیں کررہی ہوں کہ کس قدر خوش نصیب ہو تم لوگ کہ قدرت کے ان حسین مناظر میں رہتے ہو. ہمارا دیس دنیا میں جنّت کا سا منظر پیش کرتا تھا.
ہمارا گھرانہ اپنے علاقے کا متمول گھرانہ تھا. والد صاحب کا اپنا قالینوں کا کاروبار تھا. یہ ہمارا آبائی کام تھا. ہمارے قالین باہر کے ملکوں تک جاتے تھے. ہم چھ بہن بھائی تھے. میرا نام برہان ہے اور میں سب سے چھوٹا اور سب سے لاڈلا تھا. قدرت نے مجھے گلابی گالوں، شربتی آنکھوں اور سونے جیسے بالوں سے نوازا تھا. یہاں سب ہی سرخ و سپید بچے تھے لیکن ان میں بھی مجھے زیادہ حسین ہونے کا اعزاز حاصل تھا.بچپن میں کچھ پتا نہ تھا کہ ہمارے اردگرد نامعلوم سا خوف کیوں ہے. ہمیں کیوں شام کے بعد گھر سے نکلنے نہیں دیا جاتا. مگر کچھ نہ کچھ خوف تھا ضرور.
مجھے اور میرے بڑے بھائی کو اکٹھے اسکول داخل کروایا گیا.ایک روز ہم نے اسکول جاتے بڑے بازار کے پاس دیکھا کہ کچھ فوجی ایک جیپ کے پاس کھڑے مشکوک نظروں سے آنے جانے والوں کو دیکھ رہے ہیں. میں نے اپنے بھائی سے پوچھا کہ یہ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ مگر اسکو بھی میری طرح کچھ زیادہ علم نہ تھا.
جیسے جیسے شعور کی سرحدیں پار کیں تو اندازہ ہوا کہ ہم آزاد نہیں ہیں. ہم پر کوئی بیرونی طاقت مسلط ہے. ہمارا گھر ہمارا اپنا ہونے کے باوجود ہمارا اپنا نہ تھا. ہمیں بظاہر تو کسی چیز سے باندھا نہیں گیا تھا مگر ہم آزاد پھر بھی نہ تھے. ہم چونکہ شہر سے ذرا ہٹ کے ایک نواحی علاقے میں رہتے تھے اس لئے یہاں حالات قدرے بہتر تھے. لیکن ٹی-وی اور اخبارات آے دن ہونے والے ہنگاموں اور فوج کی ظالمانہ کاروائیوں کی خبروں سے بھرے ہوتے.
ہمارے ہمساۓ میں چچا نور خان رہتے تھے. انکی ایک بیٹی جسکا نام شربت گل تھا، میری ہم جماعت تھی. ہم دونوں بغیر اقرار کے ایک دوسرے کی محبت کا شکار تھے. ہم جب ایک دوسرے کی طرف دیکھتے تو وہ نظریں جھکا لیتی اور میرے چہرے پر تبسّم پھیل جاتی. ہماری محبت بہتے پانی کی طرح پاکیزہ تھی. ہمارے علاقے میں جلدی شادیوں کا رواج تھا تاہم میٹرک کے امتحانات کے بعد ہم دونوں کی نسبت طے کر دی گئی.
ابھی میری منگنی کو کچھ ہی روز گزرے ہوں گے کہ ایک رات جب ہم کھانا کھا رہے تھے تو دروازہ زور زور سے پیٹا جانے لگا. میرے والد ہڑبڑا کر اٹھے اور دروازہ کھولا تو فوجیوں کو کھڑا پایا. دروازہ کھلتے ہی وہ میرے والد کو دھکا مارتے اندر آ گئے اور تلاشی لینے لگے. میری بہنیں اور دو بھابیاں میری والدہ کہ پاس کھڑی تھیں. انکے جسم کی کپکپاہٹ دور سے محسوس کی جا سکتی تھی. میں اور میرے بھائی ایک طرف کھڑے تھے اور ہمارے خون کا درجہ حرارت بڑھ رہا تھا. میرے والد ان فوجیوں سے مسلسل پوچھ رہے تھے کہ انکو آخر چاہیے کیا. کچھ دیر کی تلاشی کے بعد ان میں سے ایک بولا کہ ہمیں ایک حرریت پسند کی تلاش ہے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ یہیں کہیں چھپا ہے. یاد رکھنا کہ اگر تم نے پناہ دینے کی کوشش کی تو انجام بہت برا ہو گا.
غصّے اور غیرت کی شدّت سے میرا چہرہ لال سرخ ہو رہا تھا. جاتے جاتے ایک فوجی نے مجھے دھکا دے کر گرا دیا اورچلتا بنا. اسکے بعد ایک عجیب خوف نے سنناٹا بن کر ہمارے درمیان جگہ بنا لی اور ساری رات نہ رخصت ہوا. نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ یہ کیسی بےبسی ہے کہ ہم زیادتیوں پر احتجاج تک نہیں کر سکتے. کسی تھانے میں پرچہ نہیں کروا سکتے. اور اگر ان فوجیوں میں سے کوئی میری بہن یا ماں کی طرف ہاتھ بڑھاتا تو میں کیا کر جاتا؟ لیکن میں کر ہی کیا سکتا تھا؟
انہی خیالات کی بھول بھولیوں میں جانے کب نیند آ گئی. صبح اٹھا تو پورے علاقے میں رات کی جانے والی تلاشی کی بات ہو رہی تھی. ایک لڑکے کو مارا بھی تھا جب اسنے اپنی بہنوں کے کمرے کی تلاشی میں مزاہمت کی. علاقے میں ایک خوف کی فضا قائم تھی. وہی خوف جو رات بھر ہمارا بھی مہمان رہا تھا. لیکن اس رات کی کروائی جیسے تسبیح ٹوٹنے کی تمثیل تھی. ایک دانہ گرے تو اسکے پیچھے کئی اور آ رہے ہوتے ہیں. اس ایک کروائی کے بعد ویسی کاروایاں روز کا معمول بن گئیں. نوجوانوں پر تشدد اور عورتوں کی تذلیل کوئی انوکھا معاملہ نہ رہا.اور یوں زندگی کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا.
لاکھوں کے حساب سے فوج ہمارے پورے علاقے میں تعینات تھی اور مٹھی بھر حریت پسند انھیں تگنی کا ناچ نچا رہے تھے. جب وہ کروائی کرتے تو فوج اپنی طاقت دکھانے کے لئے ہمارے گھروں پر دھاوا بول دیتی. اسی چوہے بلی کے کھیل کے دوران میری بہنوں کی شادیاں ہو گئیں. ساتھ ہی ساتھ میری تعلیم بھی ہچکولے کھاتی آگے بڑھتی رہی.
پھر ایک روز ہم سب کو گھروں سے باہر نکال کر قطار بند کر دیا گیا. فوج کے ہاتھ کوئی جاسوس آیا تھا جسنے اپنے مددگاروں کی نشاندہی کرنی تھی. اس بیچارے کی کیا معلوم کیا مجبوری تھی کہ اسنے میرے بھائی کی طرف اشارہ کر دیا. اور پل بھر میں کی فوجی میرے بھی پر پل پڑے اور لاتوں اور گھونسوں کی بارش کر دی. میرے والد بچانے کے لئے آگے بڑھے تو انھیں بھی بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بھائی کو وہ گاڑی میں ڈال کر کہیں لے گۓ.
ہم سب گھر والے بے بسی کی تصویر بنے یہ سب دیکھتے رہ گئے. اس دن میرے اندر کچھ ٹوٹ گیا. ایسا جینا بھی کیا جینا کہ جس میں آپ کی جان اور عزت ہر لمحے داؤ پر لگی رہے.
پھر ایک رات میں چپکے سے گھر سے نکلا. گھر والوں کو الله کے سپرد کیا اور اپنی نئی راہ پر چل نکلا. مجھے یہ بھی خبر نہ تھی کہ مجھے جانا کہاں ہے. بس ایک لگن تھی کہ اب ایسے گھٹ گھٹ کے نہیں جینا. میری بچپن کی محبت اور گھر والوں کی محبت نے میرے پاؤں کی بیڑی بننے کی کوشش کی لیکن میرے سینے میں جلنے والی جولامکھی نے مجھے اس قید سے آزاد کر دیا.
میں نے کچھ کالج کے لڑکوں سے سن رکھا تھا کہ شمالی جنگلوں میں کہیں حریت پسندوں کا ٹھکانہ ہے. میں بس اسی طرف چلتا رہا. کئی دن کے مسلسل سفر کے بعد بھی مجھے کوئی حرریت پسند نظر نہ آے. میں یونہی گمشدہ گمراہ چلتا جا رہا تھا کہ کسی نے میری کنپٹی پر بدوق کی نالی رکھ دی. اب میں کسی کا یرغمال تھا. وہ مجھے اپنے کمانڈر کے پاس لے گئے. کمانڈر نے میری ساری کتھا سنی. اسکے بعد مجھے کسی اندھیری جگہ پر قید کر دیا. کچھ دن کے بعد مجھے بہت سے لڑکوں کے ساتھ ٹریننگ کا کہا گیا. پتہ یہ چلا کہ وہ میری کہانی کی تصدیق کرنا چاہ رہے تھے. اور جب میری کہانی سچ نکلی تو مجھے ٹریننگ کی اجازت دے دی گئی.
جلد ہی میں حرریت پسندوں میں مقبول ہونے لگا. میرا حسن میری پہچان بن گیا. اور میری تصویریں پوسٹر بننا شروع ہو گئیں. انٹرنیٹ کے ذریع یہ پوسٹرز تیزی سے پھیلنا شروع ہو گئے. انکا مقصد حرریت پسندوں کی سوچ، طریقہ کار اور فلسفہ پھیلانا تھا. میرے ساتھی نوجوان مجھے "پوسٹر بواۓ" کے نام سے بلانے لگے.
میرے بعد میرے گھر والوں کو سخت مشکلات سے گزرنا پڑا. آے روز فوجی میرے بھائی یا والد کو لے جاتے اور میرا پوچھتے. کسی طرح مجھے میری منگیتر کا خط بھی ملا. اسنے میری حوصلہ افزائی کی تھی کہ میں جس راستے پر ہوں، اکیلا نہیں ہوں. وہ میرے ساتھ ہے، اور یہ کہ میں اسکا فخر ہوں. اسکا خط پڑھ کر دل کو تھوڑا اطمینان ہوا اور باکی گھر والوں کی مشکلوں کا غم تھوڑا مدھم ہوا.
مجھے عسکری کاروائیوں سے دور رکھا جاتا تھا لیکن میری تصویروں اور ویڈیو پیغامات کے ذریعے مزید کئی نوجوانوں کو اس راہ کی طرف لایا جا رہا تھا. فوج کے لئے میں ایک درد سر بن چکا تھا. وہ مجھے ڈھونڈنے کی پوری کوششیں کر رہے تھے. اور آخر وہ دن بھی آ ہی گیا کہ جب فوج کو ہمارے خفیہ ٹھکانے کی خبر مل ہی گئی اور فوج نے ہمارا محاصرہ کر لیا. بچنے کا امکان تو اب بلکل نہ تھا. لیکن مجھے موت سے ڈر نہیں لگتا. میں اتنا ضرور سوچ رہا تھا کہ یہ حسین وادیاں کس ظلم کا شکار ہیں. انسان کب تک اپنے مفادات اور خودغرض خیالات کی حفاظت کے لئے دوسروں کو قیدی بنا کے رکھے گا؟ کیوں ایک انسان سے زمین یا زر کے لئے اسکے بنیادی حقوق غصب کیے جاتے ہیں؟ اور درختوں کو بہاروں میں ہی کیوں خزاؤں کے حوالے کر دیا جاتا ہے؟
غصّے اور غیرت کی شدّت سے میرا چہرہ لال سرخ ہو رہا تھا. جاتے جاتے ایک فوجی نے مجھے دھکا دے کر گرا دیا اورچلتا بنا. اسکے بعد ایک عجیب خوف نے سنناٹا بن کر ہمارے درمیان جگہ بنا لی اور ساری رات نہ رخصت ہوا. نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ یہ کیسی بےبسی ہے کہ ہم زیادتیوں پر احتجاج تک نہیں کر سکتے. کسی تھانے میں پرچہ نہیں کروا سکتے. اور اگر ان فوجیوں میں سے کوئی میری بہن یا ماں کی طرف ہاتھ بڑھاتا تو میں کیا کر جاتا؟ لیکن میں کر ہی کیا سکتا تھا؟
انہی خیالات کی بھول بھولیوں میں جانے کب نیند آ گئی. صبح اٹھا تو پورے علاقے میں رات کی جانے والی تلاشی کی بات ہو رہی تھی. ایک لڑکے کو مارا بھی تھا جب اسنے اپنی بہنوں کے کمرے کی تلاشی میں مزاہمت کی. علاقے میں ایک خوف کی فضا قائم تھی. وہی خوف جو رات بھر ہمارا بھی مہمان رہا تھا. لیکن اس رات کی کروائی جیسے تسبیح ٹوٹنے کی تمثیل تھی. ایک دانہ گرے تو اسکے پیچھے کئی اور آ رہے ہوتے ہیں. اس ایک کروائی کے بعد ویسی کاروایاں روز کا معمول بن گئیں. نوجوانوں پر تشدد اور عورتوں کی تذلیل کوئی انوکھا معاملہ نہ رہا.اور یوں زندگی کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا.
لاکھوں کے حساب سے فوج ہمارے پورے علاقے میں تعینات تھی اور مٹھی بھر حریت پسند انھیں تگنی کا ناچ نچا رہے تھے. جب وہ کروائی کرتے تو فوج اپنی طاقت دکھانے کے لئے ہمارے گھروں پر دھاوا بول دیتی. اسی چوہے بلی کے کھیل کے دوران میری بہنوں کی شادیاں ہو گئیں. ساتھ ہی ساتھ میری تعلیم بھی ہچکولے کھاتی آگے بڑھتی رہی.
پھر ایک روز ہم سب کو گھروں سے باہر نکال کر قطار بند کر دیا گیا. فوج کے ہاتھ کوئی جاسوس آیا تھا جسنے اپنے مددگاروں کی نشاندہی کرنی تھی. اس بیچارے کی کیا معلوم کیا مجبوری تھی کہ اسنے میرے بھائی کی طرف اشارہ کر دیا. اور پل بھر میں کی فوجی میرے بھی پر پل پڑے اور لاتوں اور گھونسوں کی بارش کر دی. میرے والد بچانے کے لئے آگے بڑھے تو انھیں بھی بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بھائی کو وہ گاڑی میں ڈال کر کہیں لے گۓ.
ہم سب گھر والے بے بسی کی تصویر بنے یہ سب دیکھتے رہ گئے. اس دن میرے اندر کچھ ٹوٹ گیا. ایسا جینا بھی کیا جینا کہ جس میں آپ کی جان اور عزت ہر لمحے داؤ پر لگی رہے.
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے ، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
(فیض)
میں نے فیصلہ کر لیا کہ مرنا ہے تو عزت سے مروں گا. یوں بےبسی کی موت مجھے قبول نہ تھی.پھر ایک رات میں چپکے سے گھر سے نکلا. گھر والوں کو الله کے سپرد کیا اور اپنی نئی راہ پر چل نکلا. مجھے یہ بھی خبر نہ تھی کہ مجھے جانا کہاں ہے. بس ایک لگن تھی کہ اب ایسے گھٹ گھٹ کے نہیں جینا. میری بچپن کی محبت اور گھر والوں کی محبت نے میرے پاؤں کی بیڑی بننے کی کوشش کی لیکن میرے سینے میں جلنے والی جولامکھی نے مجھے اس قید سے آزاد کر دیا.
میں نے کچھ کالج کے لڑکوں سے سن رکھا تھا کہ شمالی جنگلوں میں کہیں حریت پسندوں کا ٹھکانہ ہے. میں بس اسی طرف چلتا رہا. کئی دن کے مسلسل سفر کے بعد بھی مجھے کوئی حرریت پسند نظر نہ آے. میں یونہی گمشدہ گمراہ چلتا جا رہا تھا کہ کسی نے میری کنپٹی پر بدوق کی نالی رکھ دی. اب میں کسی کا یرغمال تھا. وہ مجھے اپنے کمانڈر کے پاس لے گئے. کمانڈر نے میری ساری کتھا سنی. اسکے بعد مجھے کسی اندھیری جگہ پر قید کر دیا. کچھ دن کے بعد مجھے بہت سے لڑکوں کے ساتھ ٹریننگ کا کہا گیا. پتہ یہ چلا کہ وہ میری کہانی کی تصدیق کرنا چاہ رہے تھے. اور جب میری کہانی سچ نکلی تو مجھے ٹریننگ کی اجازت دے دی گئی.
جلد ہی میں حرریت پسندوں میں مقبول ہونے لگا. میرا حسن میری پہچان بن گیا. اور میری تصویریں پوسٹر بننا شروع ہو گئیں. انٹرنیٹ کے ذریع یہ پوسٹرز تیزی سے پھیلنا شروع ہو گئے. انکا مقصد حرریت پسندوں کی سوچ، طریقہ کار اور فلسفہ پھیلانا تھا. میرے ساتھی نوجوان مجھے "پوسٹر بواۓ" کے نام سے بلانے لگے.
میرے بعد میرے گھر والوں کو سخت مشکلات سے گزرنا پڑا. آے روز فوجی میرے بھائی یا والد کو لے جاتے اور میرا پوچھتے. کسی طرح مجھے میری منگیتر کا خط بھی ملا. اسنے میری حوصلہ افزائی کی تھی کہ میں جس راستے پر ہوں، اکیلا نہیں ہوں. وہ میرے ساتھ ہے، اور یہ کہ میں اسکا فخر ہوں. اسکا خط پڑھ کر دل کو تھوڑا اطمینان ہوا اور باکی گھر والوں کی مشکلوں کا غم تھوڑا مدھم ہوا.
مجھے عسکری کاروائیوں سے دور رکھا جاتا تھا لیکن میری تصویروں اور ویڈیو پیغامات کے ذریعے مزید کئی نوجوانوں کو اس راہ کی طرف لایا جا رہا تھا. فوج کے لئے میں ایک درد سر بن چکا تھا. وہ مجھے ڈھونڈنے کی پوری کوششیں کر رہے تھے. اور آخر وہ دن بھی آ ہی گیا کہ جب فوج کو ہمارے خفیہ ٹھکانے کی خبر مل ہی گئی اور فوج نے ہمارا محاصرہ کر لیا. بچنے کا امکان تو اب بلکل نہ تھا. لیکن مجھے موت سے ڈر نہیں لگتا. میں اتنا ضرور سوچ رہا تھا کہ یہ حسین وادیاں کس ظلم کا شکار ہیں. انسان کب تک اپنے مفادات اور خودغرض خیالات کی حفاظت کے لئے دوسروں کو قیدی بنا کے رکھے گا؟ کیوں ایک انسان سے زمین یا زر کے لئے اسکے بنیادی حقوق غصب کیے جاتے ہیں؟ اور درختوں کو بہاروں میں ہی کیوں خزاؤں کے حوالے کر دیا جاتا ہے؟
درد پنیری بونے والو
گھر بھی جنگل ہو جاتے ہیں
____________________________
This story was written by Naveed Arshad. Full rights and credits belong to him. You can contact him here
This picture was taken by Capt_Pixel, an amazing photographer. All rights to this picture are reserved by Capt_Pixel. and we use his pictures at A Thousand Words after full disclosure and consent. Follow him on Instagram @capt_pixel
Allah un ko azadi naseeb kry .
ReplyDeleteGood story
Allah un per apna rehem kere
ReplyDeleteAllah un per apna rehem kere
ReplyDelete