The Flip Side | Phanday
پھندے
شہباز ایک عام سا سبزیفروش تھا. گھر، ماں، بیوی اور دو بچے؛ یہی اسکی کل کائنات تھی. منہ اندھیرے اٹھ کر سبزی منڈی جانا اور پھر سارا دن اسے بیچنے کی کوشش کرنا اسکی کل زندگی. بس ضروریات پوری ہو جایں تو بہت ہے، آسائشیں تو بہت ہی دور کی بات تھیں. پر شاید اسکو معلوم ہی نہ تھا کہ آسائشیں ہوتی کیا ہیں. مگر وہ غصّے کا بہت تیز تھا جس سے گمان ہوتا تھا کہ وہ اپنی محرومی سے اچھی طرح واقف بھی تھا اور اسکی آگ میں جلتا بھی رہتا تھا.
محلے میں سب جانتے تھے کہ وہ دل کا اچھا انسان ہے. بس غصّہ جلدی اور زیادہ کر جاتا ہے. اور اسکے غصّے کے پیچھے ہمیشہ اسکے خاندان کی عزت یا صحت ہوتی تھی. کسی نے بازار میں بدتمیزی کی اور گلی بک دی تو اسکی خیر نہیں. کسی بچے کو چوٹ لگی تو بیوی کی شامت آئ کہ تھری لاپرواہی سی ہوا. ماں بتھیرا سمجھاتی کہ ایسے کوفت لینے سے کسکا فائدہ؟ پر وہ بھی کیا کرتا. غصّہ اسکے اختیار میں ہی نہ تھا.
___
شاہ رخ ایک بگھڑا ہوا امیرزادہ تھا جسکو اپنے باپ کی ناجائز کمائی پر بوہت ناز تھا اور وہ اسکا ہر ممکن غلط استعمال بھی کرتا تھا. غرور کے اسی نشے میں دھت وو سب انسانوں کو حقارت سے ہی دیکھتا تھا. خصوصا اسکے ملازم تو گویا اسکے زرخرید غلام تھے. جب جی چاہا کسی ایک کو پیٹ دیا. اس سب پر قہر یہ تھا ک اسے اپنے باپ کی طرف سے ہر جائز اور ناجائز حرکت پر مکمل مالی اور سیاسی حمایت حاصل تھی. وہ وقت دور نہ تھا جب وہ کوئی حد پار کر جائے گا. گھمنڈ کی دھند میں اسکو حدود شاید دیکھتی ہی نہ تھیں.
___
شہباز کی زندگی میں مالی شام تو تھی ہی، پر ایک حادثے کے بعد جو اسکی زندگی میں امید کی ہلالی روشنی تھی، وہ بھی جاتی رہی. ہوا کچھ یوں کہ بچوں کی کھیل میں شروع ہونے والی لڑائی گھر ک بڑوں تک پہنچ گئی. حرفین غصّے میں تو تھے ہی، پر مخالفوں میں سے ایک شخص کچھ حد سے بڑھ رہا تھا. اسنے غصے میں ایک پتھر جو چلا مارا، ساتھ ہی شہباز کو ماں کی گالی بھی نکال دی. وہ پتھر شہباز کے بیٹے کا سر، اور وہ گالی شہباز کا دماغ پھاڑتے نکل گئی. پھر کیا تھا. شہباز نے آو دیکھا نہ تاؤ، اس شخص پر پل پڑا. جب تک لوگ انکو الگ کرنے میں کامیاب ہو سکے اس وقت تک کافی دیر ہو چکی تھی. شہباز ایک لمحے میں ایک شریف آدمی سے قاتل بن چکا تھا.
شہباز ک خلاف مقدمہ کچھ مشکل نہ تھا. کئی شاہدین کے سامنے، دن کی روشنی میں کیا گیا یہ حادثاتی قتل جلد ہی عدالت کی طرف سے اسکی سزا موت بن کر استک واپس پہنچا. اسکی زندگی کے بس اب کچھ ہی روز باکی تھے.
___
شاہ رخ کی بدتمیزیوں میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا تھا. قسمت کا کرنا کچھ یوں ہوا کہ شاہ رخ کا ایک نیا اور قیمتی موبائل کہیں چوری ہو گیا. کیا یہ کسی نہ کسی حویلی کہ بندے نے ہی تھا کیوں کہ وہ تو کچھ روز سی گھر سی نکلا ہی نہ تھا. پوری حویلی میں سب ملازمین پر ہیبت طاری تھی کہ نا جانے اب کیا ہو گا. سب ملازمین کی لائن حاضری ہوئی. کسی نے اقرار جرم نہ کیا مگر تین چار لوگوں کی زبانی ایک کمسن ملازم کو آخری بار اسکے کمرے میں جاتے دیکھا گیا تھا. اب جو شاہ رخ نے اسے پیٹنا،گھسیٹنا اور دھکیلنا شروع کیا کہ کسی طور اس سے اقرار کروا لے. پر بچا معصوم تھا. نہ اسنے موبائل چرایا تھا نہ اسے اسکے بارے کچھ بھی علم تھا. پر شاہ رخ کے لئے اسکا انکار کرنا کافی نہ تھا سو وہ اسکو پیٹتا چلا گیا. غصے سے اندھے شاہ رخ نے اپنے جلال میں بچے کو دھکا دیا تو وہ بےقابو ہو کر کھڑکی کے پار، دوسری منزل سے سر کے بل صحن میں جا گرا اور موقع پر ہی دم توڑ گیا.
پولیس ائی. مقدمہ درج ہوا. شاہ رخ کو جیل بھی جانا پڑا. مگر اس بچے کے گھر والے مقدمہ لڑ نہیں سکتے تھے. ویسے بھی وہ نسلوں سے انہی کے ملازم تھے. چند ہزار میں خون بہا اور معافی طے پائی اور معاملہ با آسانی رفع دفع ہوا. شاہ رخ اب کسی اونچی یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہے، مگر اب ہر ملازم اسکے کمرے کی صفائی کرنے سے ڈرتا ہے.
___
آج شہباز کو صبح چار بجے سینٹرل جیل میں تخت دار پر چڑھا دیا گیا تھا اور اب اسکے لواحقین اسکی نعش کے منتظر بیٹھے ہیں. شہباز کے پھانسی گھاٹ کے ساتھ ایک اور پھانسی گھاٹ ویران پڑا ہے. جسکو اسپر چڑھنا تھا، حقدار تو وہ بھی اتنا ہی تھا، مگر دولت اور طاقت کے باسی اس رسی کو بہت پہلے، بہت دور سے کاٹ چکے تھے.
____________________________
This story was written by Naveed Arshad. Full rights and credits belong to him. You can contact him here
This amazing picture was taken by Natalia Drepina, an amazing photographer. All rights to this picture are reserved by Natalia and we use this picture at A Thousand Words after full disclosure and consent. Visit her Gallery & Follow her on DeviantArt
Nice
ReplyDelete