The Flip Side | Mohabbat aur Milkiyat
محبت اور ملکیت
ہمارے گھر خوشیاں بارش کی طرح برس رہی تھیں. میری شادی کے پانچ سال بعد الله نے مجھے "خوشخبری" سے نوازا تھا. خوش ہونا توفطری تھا، مگر پانچ سال کی تاخیر نے اس خوشی کو کئی اضافی چاند لگا دیے تھے. اسکے باوجود میرے اندر ایک ڈر پل رہا تھا کہ بچے کی پیدائش کے بعد بڑھتے ہوے اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟ حالانکہ میں ایک پرائیویٹ فرم میں ایکسپورٹ انچارج تھا لیکن دل خدشات میں گھرا رہتا کہ اتنی بڑی ذمہ داری کو میں کیسے نبھاؤں گا. اسکے ساتھ ساتھ کچھ خواب بھی تھے کہ اگر بیٹا ہوا تو اسکو کیسے پالنا ہے اور بیٹی کو کیونکر پالا جائے.
گردش دوراں نے اس خوشخبری کو ایک صحت مند اور خوبصورت بیٹے کی شکل دی جسکا نام میں نے محمّد احمد رکھا. جب خبریں حقیقت بنیں تو خدشات بھی انکی دمک میں مدھم پڑ گئے. میری آمدن کے ساتھ مجھے والدین کی مالی مدد بھی حاصل تھی. تاہم سب کچھ احسن طریقے سے چلتا رہا.
میں جیسے ہی دفتر سے گھر جاتا، احمد کے ساتھ کھیلنے لگ جاتا. وہ بھی مجھ سے بہت مانوس تھا. مجھے دیکھتے ہی میری طرف لپکتا. وہ دن میں کیسے بھول سکتا ہوں جب اسنے مجھے پہلی دفع "بابا" کہا تھا؟ جو احساس میرے سینے میں جاگا تھا وہ ناقابل بیان ہے. میرا جی چاہتا تھا کہ ساری خوشیاں اس کے قدموں میں ڈھیر کر دوں. سب والدیں کی طرح میرے یہ جذبات فطری تھے، مگر مجھ میں ایک واضح تبدیلی آ رہی تھی. وہ یہ کہ احمد کے معاملے میں مجھے شراکت منظور نہ تھی. اسکو میری گود سے کوئی لیتا تو مجھے برا لگتا. وہ کسی اور کے کھلونے سے کھیل کے خوش ہوتا تو مجھے غصہ آتا. میری احمد کے لئے محبت خودغرضی بنتی جا رہی تھی.
جب احمد دو سال کا ہوا تو میری بیوی نے مجھے اگلے بچے کے بارے میں سوچنے کا کہا لیکن میرے خیال میں یہ احمد کے ساتھ زیادتی تھی. اس لئے میں ہمیشہ اس بات کو ٹال جاتا تھا. اسی ٹال مٹول میں کچھ اور سال بھی بیت گۓ.
وقت آیا احمد کو اسکول داخل کروانے کا. کسی بھی سستے اور غیر معیاری اسکول سے میں تو کسی حال متفق نہ تھا، اور مہنگے اسکول میری پہنچ سے کچھ دور تھے. تاہم میں نے ایک پارٹ ٹائم نوکری بھی شروع کر دی. اب میں صبح ٩ بجے گھر سے نکلتا تو رات ١١ بجے واپس آتا. احمد یا تو سو چکا ہوتا یا سونے کے لئے بستر میں ہوتا. لیکن اب مجھے یہ اطمینان تھا ک وہ سب سے بہتر اسکول میں پڑھ رہا ہے اور اسکے لباس اور خوراک میں کسی قسم کی کمی نہیں ہے. جب لوگ اسکے اسکول یا کپڑوں کی تعریف کرتے تو مجھے یوں لگتا کہ میری محنت کی قیمت وصول ہو گئی ہے. اگر کبھی وہ رات گئے تک جاگ کر مجھ سے کھیلنے کی کوشش کرتا یا کوئی فرمائش کرتا تو میں اس قدر تھکا ہوتا کہ چاہ کر بھی میں اسکو وقت نہ دے پاتا. مجھے معلوم تھا کہ اس سب سے اسکا دل ٹوٹتا ہے پر یہ سب اس ہی کی بہتری کے لئے تھا.
اس قدر محنت کی وجہ سے ہونے والی تھکاوٹ نے مجھے چڑچڑا بنا دیا تھا. اسی وجہ سے میری اپنی بیوی سے بھی نہ بنتی تھی.اسکو مجھ سے سب سے بڑا گلہ یہ تھا کہ میں نے اسکی مزید اولاد کی خواہش کا گلا گھونٹ دیا تھا جبکہ میرا یہ ماننا تھا کہ مزید اولاد سے احمد کی تربیت پربرا اثر پڑے گا.
احمد کی پانچویں جماعت میں کامیابی اور اسکی سالگرہ آگے پیچھے ہی تھیں. سو انکو ایک بڑی تقریب میں دھوم دھام سے منانے کی تجویز میں نے ہی دی. سب تیاریاں عروج پر تھیں اور احمد کی منپسند ماؤنٹین بائیک بھی بطور تحفہ پہنچ چکی تھی. لیکن عین تقریب کے روز دفتری کاموں میں میں ایسا الجھا کہ تقریب کا حصّہ نہ بن سکا. اس رات جب میں واپس آیا تو احمد کی آنکھوں میں دکھ اور گلہ دیکھا. شاید زندگی میں آخری بار. اور بیگم تو کبھی کی مجھ سے شکوہ کرنا چھوڑ چکی تھی.
میرا خواب تھا کہ احمد انجنیئر بنے تاکہ میں بعدازاں اسکو اپنی جگہ ایڈجسٹ کروا سکوں. مگر اسکا رجحان سائنس کی طرف بالکل نہ تھا. وہ انتہائی غیر مستقل مزاج بچہ تھا. دنیا میں اسے سب سے زیادہ عزیز اپنے دوست تھے. کہنے کو تو وہ دوست تھے پر خود پڑھ کے احمد کو پڑھائی سے دور کرنا میری نظر میں صریح دشمنی تھی.
احمد کی انہی لاپرواہیوں کی وجہ سے اسکے میٹرک کے نتائج مایوسکن تھے. میرے کہنے پر اسنے میٹرک دوہرانے پر حامی بھر تو لی مگر خود سے اسکا ایسا کوئی ارادہ نہ تھا. غالباً اگلے سال کی بہتر کارکردگی پر اسکو اپنی غلطیوں کا احساس ہو گیا ہو گا. احمد کا ارادہ کامرس کے مضامین پڑھ کر بعدازاں MBA کرنے کا تھا. یہ سب اسکا بچپنا جان کر میں نے اسے ایک پرائیویٹ کالج میں پری انجینرنگ میں داخلہ کروا دیا. میری اس سب محنت کے باوجود اسکی لاپرواہیاں ختم نہ ہوئیں اور FSc میں بھی اسکی کارکردگی قابل ذکر نہ رہی. اسی وجہ سے اسکو انجینرنگ کے لیے پرائیویٹ یونیورسٹی میں جانا پڑا. کاش اسنے دوستوں سے زیادہ پڑھائی پر توجہ دی ہوتی.
بچپن کے برعکس احمد اب مجھ سے براہ راست بات نہ کرتا تھا. اسکی ضروریات یا فرمائشیں اسکی ماں کے رستے مجھ تک پہنچتیں. مجھے اکثر محسوس ہوتا کہ مجھ سے بات کرتے ہوے اسکا لہجہ تلخ ہو جاتا تھا مگر اسکو میں اسکی عمر کا رد عمل سمجھ کر نظرانداز کر دیتا. کئی مرتبہ احمد نے مجھ سے جھوٹ بول کر بھی پیسے لئے لیکن میں یہ سوچ کر چپ کر جاتا کہ آخر اور کس ک لیے کما رہا ہوں میں؟
انجینرنگ تو خدا خدا کر کے ہو ہی گئی اور کچھ ہی محنت کے بعد اسکو ایک اچھی جگہ نوکری بھی مل گئی. اب آن پڑی اسکی شادی کی جلدی. احمد نے کبھی مجھ سے ذکر تو نہیں کیا تھا مگر مجھے اندازہ تھا کہ وہ اپنی خالہ زاد کو پسند کرتا ہے. مگر مجھے اپنے سسرال میں ایسا کوئی رشتہ نہیں بنانا تھا اور ویسے بھی وہ لڑکی احمد کے قابل بھی نہ تھی. اس لئے میں نے اسکا رشتہ اپنے ایک دوست کی بیٹی سے طے کر دیا. دونوں ماں بیٹے نے اس رشتے کی مخالفت تو کی لیکن میں نے انھیں یہ کہ کر چپ کروا دیا کہ کیا میرا احمد پر کوئی حق نہیں؟ چپ تو وہ ہو گئے مگر انکی نظروں میں مجھے اس غریب شخص کی شبیہ ملی جسنے کسی کا بے انتہا مالی احسان اٹھایا ہو اور اب وہ اسکے آگے بولنے سے قاصر ہو. یہ تاسف بھری نظریں تھیں میری زندگی بھر کی محنت کا صلہ.
ایک دن میں نے اسکو پاس بیٹھا کر پوچھ ہی لیا کہ بیٹا! میری ساری زندگی کی ریاضت تم ہو اور تم ہی مجھ سے اتنا دور کیوں ہو؟ اسنے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور بولا "آپ میں سننے کا حوصلہ نہیں ہے بابا". میرے چہرے سے ایک رنگ آے اور دوسرا جائے، لیکن پھر بھی ہمّت باندھ کر میں نے کہا کہ آج جو تمہارے دل میں ہے کہ دو. یہ سن کر وہ یوں بولنا شروع ہوا گویا ایک عمر سے اسی لمحے کا منتظر ہو. کہنے لگا:
"بابا! آپ نے اپنی ساری زندگی اپنی محبت میں گزاری ہے جسکو آپنے میری محبت کا نام دیۓ رکھا. اپنی ہر خواہش کو آپ نے میرے ذریے پورا کرنے کی کوشش کی. کیا آپ جانتے بھی ہیں کہ محبت کیا ہوتی ہے؟ اپنے کسی پسندیدہ پرندے کو پنجرے میں بند کرنا محبت نہیں ہے. محبت تو کسی کی خوشی میں خوش ہونے کا نام ہے. کسی کو مسکراتا دیکھ کر بےساختہ خود بھی مسکرا دینا محبت ہے. آپ نے مجھ پر بہت پیسا خرچا ہے. میری ہر مالی خواہش کا خیال رکھا ہے. لیکن آپ کی نظر میری ظاہری خوشیوں پر رہی ہے. میرا باطن کیا چاہ رہا ہے، یہ آپنے کبھی نہ دیکھا. اور محبت تو دلوں کا رشتہ ہے نہ. آپنے میرے لئے جو کچھ کیا اس سے احسان مندی اور جذبہ تشکر تو ابھر سکتا ہے، پر دل نہیں ملتے.
جب جب مجھے آپکی ضرورت تھی، آپ دفتر میں مصروف رہے. اپنی کمی آپ پیسے سے دور نہیں کر سکتے بابا. میں سستے کپڑے پہن کر، کسی عام سے اسکول میں پڑھ کر شاید زیادہ خوش ہوتا اگر ان خوشیوں میں آپ کبھی میرے ساتھ ہوتے.
بابا! آپ نے ہمیشہ اپنی سوچوں اور خیالات کے معبد میں میرے جذبات کے مجسمے سجاے رکھے. جو آپکے خیال میں سہی تھا، آپکی سوچ میں میرے جذبات بھی وہی شکل اختیار کر گئے. حقیقت کیا تھی، یہ آپنے کبھی نہ سوچا. اور پھر یہ امید لگا لی کہ مجھے آپ سے محبت ہو.
'محبت اور ملکیت ' میں فرق ہوتا ہے بابا. میں ہمیشہ آپکی ملکیت تھا، محبوب نہیں."
یہ سب کہ کر احمد تو کمرے سے چلا گیا، مگر میرے وجود میں وہ ایک سنناٹا چھوڑ گیا. یوں محسوس ہوتا تھا کہ جسے کبھی میں نے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا تھا، آج وہ میری انگلی تھامے مجھے سیدھا راستہ سجھا گیا ہو...
_________________________
This story was written by Naveed Arshad. Full rights and credits belong to him. You can contact him here.
This picture was taken by Fakharry Khalid Parvez, an amazing photographer. All rights to this picture are reserved by FKP. and we use his pictures at A Thousand Words after full disclosure and consent. Follow him on Instagram @fakharry
V nice it's reality
ReplyDeleteThis comment has been removed by the author.
ReplyDeleteI m honored
ReplyDelete