The Flip Side | Simal
سمل
"کیا تمہیں مجھ سے محبت ہے؟" وہ کہتی: "نہیں". اس کی آنکھیں اس کی آواز کا ساتھ نہ دیتیں. میرا یہ سوال اور اسکا مستقل ایک ہی جواب ہماری گفتگو کا ایک لازمی جزو تھا.
میرا نام عامر ہے اور اس وقت میں آرکٹیکٹ انجینرنگ کے دوسرے سال میں تھا جب وہ فرسٹ ایر میں نئی نئی آئ تھی. نوٹس کے تبادلے سے شروع ہونے والی یہ دوستی اب کسی اور ہی جانب گامزن تھی. اسکا نام سمل تھا. وہ دراز قد، سفید رنگت ، ستواں ناک اور لمبے گھنے بالوں کے ساتھ کسی ملک کی شہزادی معلوم پڑتی تھی. جبکہ میں ایک عام سی شکل کا باتونی لڑکا تھا.لیکن وہ مجھے ہمیشہ یہ کہتی تھی کہ مجھے ظاہری خوبصورتی سے کوئی غرض نہیں ہے.
مجھے یوں لگتا تھا کہ گویا ہم کبھی ایک ہی روح تھے جسکو دو جسموں میں بانٹ دیا گیا ہو. میرے دل کی باتیں وہ یوں جان لیتی جیسے وہ اسکے سامنے ایک کھلی کتاب ہو. اور اسکی شکل دیکھ کر میں بھانپ لیا کرتا تھا کہ وہ خوش ہے یا پریشان. ہماری دوستی کے چرچے پوری یونیورسٹی میں تھے. چونکہ وہ اور لڑکوں کو منہ نہ لگاتی تھی تو کافی لڑکے مجھ سے جلتے بھی تھے.
ہم دونوں متوسط طبقوں سے تعلق رکھتے تھے. میرے والد صاحب مکینیکل انجنیئر تھے جب کہ اسکے والد سرکاری ملازم. وہ دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی اور میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا. ہماری دوستی، یا محبت (جسکو وہ کبھی محبت کا نام نہ دیتی تھی) ایسی ناؤ تھی جو سمندر کی زوردار لہروں کا شکار ہو جائے اور اپنا اختیار کھو بیٹھے. اسکے باوجود وہ ایسی بےباک ہو کہ اسکو نہ اپنے انجام کی خبر ہو نہ پرواہ.
ہم دونوں حقیقت سے یوں نظریں چراے ساتھ ساتھ چلتے مستقبل کے منصوبے بناتے جیسے ہمیں نوشتہ تقدیر نظر ہی تو نہ آ رہا ہو. اور تقدیر کی تحریر کچھ یوں تھی کہ سمل کے خاندان میں ذات سے باہر شادی ایسا گناہ گردانا جاتا تھا جسکی سزا صرف اور صرف موت تھی، یا اس سے بھی بدتر "زبردستی کی شادی".
وہ مجھ سے اکثر کہتی کہ اگر میں بہادر بن بھی جاؤں تو خاندان اور دنیا میں عزت گنوانے کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہ آے گا. اور اگر میں بھاگ کر آپ سے شادی کر لوں تو میرے ماں باپ جیتے جی مر جایں گے. یہ بات ہم دونوں سمجھتے تھے کہ اس رشتے کا کوئی مثبت انجام ممکن نہیں لیکن کوئی نہ کوئی قوت تھی جو ہمیں خود کو دھوکہ دیتے رہنے پر اکسا رہی تھی. اور ہم کسی معجزے کی امید لگاۓ اس رشتے کو پروان چڑھاتے رہے.
یونیورسٹی میں ہماری اپنی ہی ایک دنیا تھی. اگر میں کسی اور لڑکی سے ہنس کے بات کر لیتا یا کسی کے پاس بیٹھا اسے کچھ سمجھاتا نظر آ جاتا تو سمل کا موڈ خراب ہو جاتا تھا، اور وہ غصّے سے کہتی کہ جایں اسکے پاس واپس، یہاں کیا لینے آے ہیں؟ پھر اسکو منانے میں گھنٹوں بیت جاتے. لیکن میں یہ جانتا تھا کہ یہ بھی اسکی بے انت محبت کی ایک ادا تھی.
اسکی سالگرہ جون میں آتی تھی. میں نے اسکی سالگرہ کے تحفہ کے طور پر ایک ویڈیو بنائی جسمیں چوبیس گھنٹوں کے حساب سے چوبیس کارڈ تھے. دن میں دن کا منظر اور اظہار محبت، رات کو رات کا منظر اور اظہار محبت. اور آخری کارڈ کے ساتھ یہ گانا پس منظر میں چلتا تھا:
"ہم ہیں اس پل یہاں ، جانے ہوں کل کہاں"
اس تحفہ کے کئی دن تک وہ ایسی تھی جیسے اسپر کسی نے جادو کر دیا ہو. وہ کھوئی کھوئی سی رہتی اور کہتی کہ یہ آپ نے کیسا تحفہ دیا ہے کہ میں چاہ کر بھی اسکو خود سے علیحدہ نہیں کر سکتی. یہ مجھے سکوں سے جینے نہیں دے گا.ایک مرتبہ اسنے میری سالگرہ پر مجھے سرپرائز دیا. ایک چھوٹا سا کمرہ تھا لائبرری کے ساتھ. اس نے جیسے تیسے کر کے وہاں سالگرہ منانے کی اجازت لے لی اور اس کمرے کو اتنی خوبصورتی سے سجایا کہ اسے دیکھ کر میری آنکھیں بھر آئیں. کیک وہ خود گھر سے بنا کر لائی تھی. ہمارے چند مشترکہ دوستوں کے ساتھ مل کر ہم نے سالگرہ منائی.
وقت ظالمانہ رفتار سے جاری تھا. وہ وقت بھی آ گیا جب مجھے یونیورسٹی سے ہمیشہ کے لئے جانا تھا. فیرول پر وہ سفید کپڑوں میں ملبوس کوہ کاف سے آئی پری لگ رہی تھی. سب خلق اپنی تعلیم کے اکمال پر خوش تھے اور ہم دونوں ایک کونے میں مستقبل کے اندیشوں میں گھرے بیٹھے تھے. عجیب سی خاموشی ہم دونوں میں حائل تھی. میں نے کچھ مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی تو اسکی آنکھیں جھلک گیں. کہنے لگی کہ لگتا ہے زندگی میں جتنا ہنسنا تھا آپ کے ساتھ ہنس لیا. اب اور نہ ہو گا. میں نے بھی سنجیدگی کی چادر اوڑھتے ہوے کہا کہ اگر ہم جسمانی طور پر نہ بھی مل پاے تب بھی ہمارے دلوں کا رشتہ کوئی نہ توڑ پاے گا. اس پر اسنے یہ شعر پڑھا:
میری طلب تھا ایک شخص جووہ نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی
میں نے ایک سرد آہ بھری اور ہم دونوں بھی کھانا کھانے کے لئے اٹھے. اسنے ایک ہی پلیٹ میں ہم دونوں کے لئے کھانا ڈالا. ہم نے عجیب سی خاموشی میں وہ کھانا ختم کیا. ابھی اسکا ایک سال یونیورسٹی میں باقی تھا، جبکہ میرا وہ آخری دن تھا. وہ مجھے پارکنگ تک چھوڑنے آئی مگر اسکی خود کو سنبھالنے کی کوشیش صاف نظرآ رہی تھیں. جب میں گاڑی سٹارٹ کر کے یونیورسٹی کیمپس سے باہر نکلا تو مجھے اسکا میسج ملا جسمیں یہ شعر تھا:
میں نے روکا بھی نہیں، اور وہ ٹھہرا بھی نہیں
حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں
ایک مرد کی بےبسی کیا ہوتی ہے، میں کبھی سمجھ نہیں پایا تھا. مگر اس سے بھاگ کر شادی کرنے کا کہتا تواسکے اپنے والدین کے لئے اندیشے، اور اسے یہ بھی لگتا تھا کہ وہ اپنے ساتھ ساتھ میری جان کو بھی خطرے میں ڈالے گی. اسنے اپنے خاندان کا مان بچانا تھا اور میں چاہ کر بھی اسے الزام نہ دے پایا:
کہنے کو جدا تھا مجھ سے لیکن
وہ میری رگوں میں گونجتا تھا
یوں دل میں تھی یاد اسکی جیسے
مسجد میں چراغ جل رہا تھا
اس بات کو کچھ عرصہ بیت چکا تھا جب مجھے اسکا پیغام ملا کہ اسکی شادی اسکے خاندان میں طے پا چکی ہے. مجھ سے یہ توقع تھی کہ میں مہندی کے دن تک اسکا ساتھ دوں کیونکہ وہ اکیلی جھیل نہ پاے گی.
اسنے جو کہا، کیا وہ دل نے
انکار کا کس میں حوصلہ تھا
اس کی شادی کا دن بھی آن پہنچا. اس نے روتے ہوے مجھ سے اجازت چاہی اس وعدے کے ساتھ کہ اسے جب بھی میری ضرورت ہو گی، میں اسکے لئے موجود ہوں گا. ہم دونوں نے پیمان باندھے کہ یہ دوستی کبھی ختم نہ ہونے دیں گے.
ہم دونوں کا دکھ تھا ایک جیسا
احساس مگر جدا جدا تھا
آج اس بات کو پندرہ برس گزر چکے ہیں. میری بھی شادی ہو چکی ہے. دیکھنے میں سب کچھ ٹھیک ہے لیکن "اسکی ذات کے سورج کا عکس آج بھی میری آنکھوں کے سمندروں کے پانی میں واضح نظر اتا ہے".
اسکو کیسے بھولوں ناصر، کیسی باتیں کرتے ہو
صورت تو پھر صورت ہے، وہ نام بھی پیارا لگتا ہے
_____________________
This story was written by Naveed Arshad. Full rights and credits belong to him. You can contact him here.
This picture was taken by Ali Awais, an amazing photographer and a wonderful friend of ours. All rights to this picture are reserved by Ali Awais and we use his pictures at A Thousand Words after full disclosure and consent. Follow him on Instagram @ali_awaiss
Gr8 Naveed Keep It Up
ReplyDeleteThanks bhaii g
DeleteAwesome
ReplyDeleteThanks
DeleteInspiring love story keep it up 👌
ReplyDeleteHonored
Delete