The Flip Side | Yaadgaar
یادگار
بازار کی چہل پہل دیکھ کے کسی میلے کا گماں ہوتا تھا. بازار میں دکانیں تھیں جہاں مختلف اشیاء کی خرید و فروخت سرعت سے جاری تھی. ریاست کے دور دراز علاقوں سے لوگ بازار کی رونق دیکھنے آیا کرتے تھے. یہ بازار ریاست جوناگڑھ کا زیور تھا.
جوناگڑھ ایک آزاد، خودمختار اور مضبوط ریاست تھی جسکا الحاق دہلی کے تخت سے تھا.اسکا اپنا راجہ، روپیہ اور فوج تھی. اس ریاست میں اتالیق کے منصب پر فائز تھے جناب راے بہادر. راے بہادر ایک بھاری بھرکم وجود کے مالک، بارعب انسان تھے اور ایسے نشانچی کہ پوری ریاست میں انکے ایسا نہ تھا.
ریاست کے شمال مشرقی حصّے میں فوج کے سپاہیوں کے لئے ایک شاندار بستی قائم کی گئی تھی. راے بہادر اور انکا خاندان بھی یہیں رہائش پذیر تھا. فوج کے سپاہیوں کو رعایا میں بہت عزت اور احترام حاصل تھا، اور راے بہادر کی اس فوج میں بے انتہا عزت تھی. متعدد سپاہی انکے شاگرد اور گرویدہ تھے.
راے بہادر کی شادی کے پندرہ سال بعد بھی انکا ایک ہی بیٹا تھا جسکا نام انہوں نے نہایت چاہ کے ساتھ بہرام خان رکھا تھا.بہرام ایک خوبصورت، گول مٹول، سرخ و سپید بچہ تھا. مگر اسکا اکلوتا پن اسکے ماں باپ کی نہیں، خدا کی رضا سے تھا. اسکا بچپن انتہائی ناز و نعم میں گزرا. لیکن راے بہادر ایک شفیق باپ ک ساتھ ساتھ ایک سخت گیر استاد بھی تھے. انہوں نے بہرام کو جسمانی طور پر مضبوط بنانے کے لئے ہر رایجالوقت مرحلے سے گزارا. اسکے ساتھ ساتھ اسکی دینی اور دنیاوی تعلیم کا بھی خاطر خواہ انتظام کیا. بہرام کی اس اعلی تربیت کی بدولت اس پر کسی شہزادے کا گمان ہوتا تھا.
بہرام نے جب رسمی تعلیم مکمل کی تو اسے معمول کے مراحل سے گزار کر فوج میں بھرتی کر لیا گیا. اب اسکے والدین کو اسکی شادی کی فکر آ لی مگر زیادہ تردّد نہ کرنا پڑا. انکے اپنے مکان کے کچھ ہی فاصلے پر بیداربخت کا گھر تھا. بیداربخت کی بڑی بیٹی ارجمند بانو سے بہرام کی نسبت طے پائی.
اسی اثنا میں جنگ کا طبل بجا اور ریاست کو فوج کی ضرورت ان پڑی. از راہ رسم بہرام اپنی نسبت کو ایک مرتبہ دیکھ تو چکا تھا. جب اسے کوچ کا حکم ہوا تو اسنے شادی کو موخر کرنا مناسب نہ سمجھا اور فیالفور بیاہ کی ضد کر دی. کچھ لوگوں نے اسے سمجھانے کی بتہیری کوشش کی مگر وہ اپنی ضد سے نہ ہٹا. قابل غور بات یہ تھی کہ سمجھانے والوں میں ایسا کوئی نہ تھا جسنے ارجمند کو دیکھا ہو. وہ سب سمجھتے تھے کہ اس حسن کا ڈسا صبر کا متحمل نہیں. تاہم کوچ سے قبل ہی انکا بیاہ خوب دھوم دھام سے کر دیا گیا.
ضد تو پوری ہو گئی، پر تکمیل حکم سرکار بھی آخر کو بجا لانی ہی تھی. سو بہرام اپنی نوبیاہتا کو چھوڑ کر جانب کارزاز روانہ ہوا.
جنگ تو وہ جیت گئے مگر بہرام کے ساتھی میدان جنگ سے بہرام کے متعلق عجیب و غریب قصّے لے کر آے. انکے مطابق دوران جنگ بہرام کسی قدیم جنگجو کی روح کے زیر سایہ تھا، کیونکہ اس بیباکی سے کوئی عام انسان نہیں لڑ سکتا. یہاں تک کہ جنگی پڑاؤ کے کچھ ہی دنوں میں بہرام کی ہیبت دشموں پر اس قدر طاری تھی اسکو دیکھتے ہی وہ منتشر ہو جاتے. جب بہرام سے اس بارے میں پوچھا جاتا تو وہ صرف اتنا کہتا کہ "مجھے جنگ ختم کر کے گھر واپس لوٹنے کی جلدی تھی". اور اس جلدی کی وجہ بھی صرف وہی سمجھتے تھے جو ارجمند سے کبھی ملے ہوں گے.
ارجمند اور بہرام کی جوڑی نہ صرف قابل دید تھی، بلکہ قابل رشک بھی تھی. انکی لامتناہی محبت کا چرچہ پورے جوناگڑھ میں تھا. وہ اکثر چاندنی راتوں میں ندی کنارے چہل قدمی کرنے جاتے اور ہر ناظر کے حسد کا سبب بنتے. چاندنی سے مزین راتوں میں چہل قدمی انکا دلپسند مشغلہ تھا.
مگر بہرام کی وجہ شہرت صرف ارجمند کی محبت ہی نہ تھی، بلکہ فوجی عہدے میں اسکی قابلیت کا بھی کوئی ثانی نہ تھا. یہی وجہہ تھی کہ بہرام دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا. پھر خدا کا کرنا یوں ہوا کہ راجہ، جو بہرام کی قابلیت کا واقف بھی تھا اور پرستار بھی، اپنے خالق حقیقی سی جا ملا. مگر اپنے بستر مرگ پر بہرام سی وہ یہ وعدہ لے گیا تھا کہ بہرام اسکے بیٹے کا خیال رکھے گا.
راجہ کا بیٹا راجہ کے بلکل برعکس، انتہائی عیاش اور آرام پسند تھا. قانونا تو وہ حکمران تھا، مگرعملا بہرام ہی ریاست کی باگ ڈور سمبھالے ہوا تھا. وقت کو گزرنا تھا سو وہ گزرتا گیا اور گزرا بھی وہ اس طور کہ بہرام جوناگڑھ کے ہر فیصلے اور ہر بنا و تخریب کا ناظم ہو گیا.
پھر ایک روز اپنی اس طاقت اور استطاعت کا احساس بہرام کو آ لیا. اسنے فیصلہ کیا کہ وہ ارجمند کے لئے کوئی یادگار بنانا چاہتا ہے. چونکہ وہ راجہ نہ تھا، اس لئے وہ اس یادگار کو اپنی محبوب کا نام تو نہ دے سکے گا، مگر وہ اسکو اسکے روپ اور اسکی پسند میں تو ڈھال ہی سکتا تھا. تاہم اسنے ریاست کے بہترین معماروں سے ریاست کے داخلی دروازے پر ایک طویل راہداری تعمیر کروائی. ایسی راہداری جسمیں دن کو بھی رات کی سی مدھم روشنی ہو. محبت کرنے والوں کے لئے ایک ایسی جگہ جو انکو انکی پیار بھری شرارتوں کے لئے چاندنی راتوں اور ندی کناروں کی موہتاجی سے نجات دے. ایسی جگہ جہاں پر مزین قندیلیں، تاروں کی تمثیل ہوں.
آج بھی ریاست جوناگڑھ کے داخلی دروازہ پر یہ راہداری قائم ہے. آج بھی یہاں سے گزارنے والے جب کوئی پیار بھری شرارت کرتے ہیں تو ارجمند کی روح کسی کونے میں کھڑی مسکراتی ہے.
This story was written by Naveed Arshad. Full rights and credits belong to him. You can contact him here.
This picture was taken by Ali Awais, an amazing photographer and a wonderful friend of ours. All rights to this picture are reserved by Ali Awais and we use his pictures at A Thousand Words after full disclosure and consent. Follow him on Instagram @ali_awaiss
Amazing story
ReplyDeleteThank you! :)
DeleteStay tuned for more in the future :)
Awesome😊
ReplyDeleteThank you :)
Delete